');
yt video
YT Video Downloader
Lets GO
yt thambnail
YT Thmbnail Downloader
Lets GO
instagram
Instagram Video Downloader
Lets GO
twitter
Twitter Video Download
Lets GO
Facebook
Facebook Video Downloader
Lets GO
Voice to Text Converter
Voice to Text translater
Lets GO
Internet Speed Tester
Internet Speed Tester
Lets GO
Color Code Generator
Color Code Generator
Lets GO
Free Keywords Generator
Free Keywords Generator
Lets GO
Word Counter
Word Counter
Lets GO
Word Counter
Privacy Policy Generator
Lets GO
Word Counter
Tiktok Video Downloader
Lets GO
Word Counter
Remove Duplicate Lines
Lets GO
Word Counter
Article Rewriter
Lets GO
Word Counter
Plagiarism Checker
Lets GO
Word Counter
Html Compressor
Lets GO

Pages

ads

Intel's 'historic collapse' erases $8bn from market value

Intel has been steadily losing market share to rivals like AMD, which has used contract chipmakers such as Taiwan-based TSMC

from GEO TV - Markets https://ift.tt/0crMoN3

سالِ نو 2023: بدلاؤ کے لمحہ کا انتظار... (اشوک پانڈے کا مضمون)

کووڈ جیسی خوفناک وبا سے نکل کر 2022 کا جو سفر ہوا تھا، وہ ’بھارت جوڑو یاترا‘ کو لے کر جاری کووڈ ایڈوائزری کی خبر پر ختم ہوئی ہے۔ کووڈ نے بہانہ دیا تو حکومت نے شہریوں کی سہولیات چھیننے کا جو عمل شروع کیا، سال گزرتے گزرتے صاف کر دیا کہ ریلوے تک میں سینئر شہریوں تک کو دی جانے والی سہولیات اور چھوٹ بحال نہیں ہوں گی۔ سال جاتے جاتے ’مدر ڈیری‘ نے ایک بار پھر قیمت بڑھا کر ثابت کر دیا کہ نئے نظام میں ترقی کا مطلب مہنگائی ہے اور 80 کروڑ لوگوں کو مفت راشن تو دیا جا سکتا ہے لیکن روزگار کا تحفہ انتخابی تشہیر سے آگے ملنا ناممکن ہے۔ اب یہ سوال کون پوچھے کہ 80 کروڑ لوگ اس حال میں کیوں ہیں کہ انھیں اناج کے لیے جھولی پھیلانی پڑے؟

اس سال ہوائی اڈے بھی فروخت ہوئے، ریلوے اسٹیشن بھی، لیکن بلیٹ ٹرین کا انتظار، اس طرف عوام کی توجہ مبذول کہاں ہونے دیتی ہے؟ جانے ہی لگے تو گاندھی ہیں، نہرو ہیں، سبھاش ہیں، پٹیل ہیں، واٹس ایپ ہے۔ لوگ بالآخر بہل ہی جاتے ہیں۔ آخر اتنے سارے چینل بھی تو ہیں بہلانے کے لیے جن میں ہندو-مسلم اتنی بار بجتا ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری وغیرہ کے لیے کوئی امکان بچ ہی نہیں جاتا۔ ہاں، اس سال ایسی اول جلول باتیں کرنے والے آخری چینل این ڈی ٹی وی کو بھی اڈانی صاحب نے خرید لیا تو اب آئندہ سال مزید سریلا ہونے کا امکان ہے۔

لیکن اس سُر کو بے سُرا کر دیا ہماچل نے اور اس کے بھی پہلے راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے۔ سوال پھر بھی اُبھر کے آتے ہیں۔ حالانکہ انھیں دبانے کے لیے ایک نہیں، کئی مندر ہیں اور فی الحال اقتدار بیچو مہم میں مصروف ہیں۔ بکھرا ہوا اپوزیشن اور نفرت کے نشے میں مست عوام اسے پراعتماد کرتی ہے لیکن کسی نے کہا ہے کہ ہزاروں سالوں میں کچھ نہیں بدلتا اور راتوں رات سب بدل جاتا ہے، تو بدلاؤ کے اس لمحہ کا انتظار ہی اس سال سے اگلے سال تک جائے گا، اس سمجھ کے ساتھ کہ اپنے آپ تو کچھ نہیں بدلتا، اس کے لیے سب کو اپنا کردار نبھانا پڑتا ہے۔

(مضمون نگار اشوک پانڈے تاریخ داں ہیں اور کشمیر و ساورکر پر لکھی کتابوں کے مصنف بھی ہیں)



from Qaumi Awaz https://ift.tt/DlApK2r

China tech shares sink as US hobble's industry with new export rules

Biden administration cut China off from certain semiconductors made anywhere in world with US equipment

from GEO TV - Markets https://ift.tt/mSRQu1x

12 ربیع الاول: امت مسلمہ کے لیے عہدو پیمان کا دن

ماہ ربیع الاول کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس بابرکت مہینے میں سرکارِ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیؐ کی ولادت باسعادت بھی ہوئی اور آپ اسی مہینے اپنی دنیاوی زندگی مکمل کر کے مقامِ محمود پر فائز ہونے کے لیے اس دنیا سے پردہ کر گئے۔ ہم خاطی انسان اس نبیؐ برحق کی عظمت اور فضیلت کا صرف تصور ہی کرسکتے ہیں، کیونکہ بیان کرنا ممکن نہیں ہے، یایوں کہا جائے کہ اگر تمام درخت قلم بن جائیں، تمام سمندر سیاہی بن جائیں اور جنات حساب میں لگ جائیں اور تمام انسان لکھنے لگ جائیں تب بھی شان مصطفیٰؐ کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن میں خالق کائنات فرماتا ہے کہ میں اپنے اس نبی پر صلوة و سلام کرتا ہوں۔

ایسے اہم اور خاص دن پر اس روئے زمین پر بسنے والے ہر انسان بالخصوص فدائین رسولؐ کو چاہئے کہ آج کے دن اپنا محاسبہ کریں۔ موجودہ وقت میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پچھلے 12 ربیع الاول سے آج تک اپنے اعمال کا جائزہ لیا جائے اور آئندہ اس مدت کے لیے منصوبہ سازی کی جائے، مگرعادتاً مسلمانوں سے اس طرح کی امید کرنا خام خیالی ہوگا کیونکہ اس قوم کے لیے مشہور ہے کہ کھانا کھانے کے بعد مسلمان اس قدر نشے میں ہو جاتا ہے کہ اسے بستر کے علاوہ کچھ نظرہی نہیں آتا اور لیٹنے کے بعد اپنی تمام فکریں، غم، درد سے ایسے پیچھا چھڑا لیتا ہے جیسے یہ اس کی آخری رات ہے۔

مسلمانوں کی یہ خصوصیت ہے کہ سب کو یہ تو معلوم ہے کہ ’دوسروں‘ کو کیا کرنا چاہیے لیکن خود کام میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان کو ذرا بھی پتہ نہیں کہ انھیں کیا کرنا چاہیے، چنانچہ دن رات دوسروں کو سیدھی راہ پر لانے میں مصروف ہوتے ہیں، صبح اٹھتے ہی اس کوشش میں لگ جاتے ہیں کہ دوسروں کو سیدھے راستے پر لائیں۔ اس قوم کے اندر دوسروں کو راہ راست پر لانے، جنت الفردوس پہنچانے، مسلمان بنانے کا جذبہ اتنا شدید ہے کہ بیچارے خود اپنی طرف توجہ نہیں دے پاتے یعنی دوسروں کے کھیت کی سینچائی کرتے ہوئے اپنے ”کھیت“ کو بھول جاتے ہیں جو بنجر رہ جاتی ہے۔

یہ ویسا ہی ہے جیسے ایک پرجوش مسلمان نے ایک کافر کو پکڑ کر، اس کی چھاتی پر بیٹھ کر گلا دباتے ہوئے کہا، کلمہ پڑھ، نیچے پڑے ہوئے کافر نے کہا، آپ بتائیں، میں پڑھتا ہوں، دوسروں کو مسلمان بنانے میں اسے اتنی فرصت کہاں تھی کہ ”کلمہ“ یاد رکھتا۔ چنانچہ اس نے دوچار تھپڑ اس کافر کو رسید کرتے ہوئے کہا۔ کیسے کافر ہو تم، کلمہ پڑھنا بھی نہیں آتا۔ مسلمانوں کی اور بھی بہت ساری صفات مشہور ہیں مگر دراصل ہمارا آج امت مسلمہ کو تبلیغ کرنا مقصود نہیں بلکہ گفتار کے غازی، کردار سے خالی لوگوں کو ان کے بزرگوں کی قربانیوں اور جدوجہد کی یاد دلانا ہے جو ایک تاریخ ہے۔

اپنے دورِ زریں میں مسلمانوں نے دنیا میں نہ صرف انقلاب برپا کیا بلکہ لوگوں کے لیے سوچ کا ایک نیا زاویہ بھی دیا۔ سائنس مسلمانوں کی دین ہے، اس کے علاوہ مسلمانوں نے جو اہم ایجادات کیں ان میں گھڑی، علم فلکیات و ارضیات، کیمرہ، پیرا شوٹ، دوربین اور دوسری اشیاء شامل ہیں۔ یہ سب ایجادات اگرچہ مسلمانوں کی ہیں اور ہمیں اس پر فخر بھی کرنا چاہیے لیکن آخر کب تک؟ سوال یہ ہے کہ اس وقت مسلمان، دنیا میں تقریباً دو ارب ہیں، ان کا بنی نوع انسانوں کے لیے کیا کردار ہے؟ انھوں نے عصر حاضر میں کیا کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو انسانیت کے لیے نفع بخش ہو؟ جو اب نفی میں ہوگا۔

دوسری طرف مغرب، جس نے ماضی کی اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا اور آج علم کی دنیا میں مستقل آگے جا رہا ہے۔ وہاں سے ہر روز نت نئی ایجادات سامنے آرہی ہیں۔ ایک طرف مغرب تحقیق کے کاموں میں مصروف ہے تو دوسری طرف ہم ابھی تک ماضی کی مثالیں دے دے کر تھکنے کے بجائے خوش ہو رہے ہیں۔ ہم یہ کہنے پر حق بجانب ہیں کہ علم کی دنیا میں ہم اہل مغرب سے کم از کم 100 سال پیچھے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم مسلسل پستی کی جانب گامزن ہیں؟ اگر دیکھا جائے تو اس کی کئی وجوہات ہیں جن پر قابو پانے کی صورت میں مسلمان ایک بار پھر اپنا اصل مقام حاصل کرسکتے ہیں۔

ہمیں سب سے پہلے سیاسی اختلافات پر قابو پانا ہوگا، وہیں اس امت کا ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم مخالف مسلک کو مسلمان ہی نہیں مانتے۔ جس کی وجہ سے اختلافات مستقل بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور ہم کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ تعلیمی اختلافات بھی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔ ابھی تک مسلم دنیا کوئی ایک ایسا تعلیمی نظام متعارف نہیں کرا سکی جہاں دینی و دنیاوی تعلیم ایک ساتھ ہوسکے۔ جبکہ ماضی میں کسی مسلم شخصیت کے بارے میں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دین کا عالم ہونے کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں بھی مہارت رکھتا تھا۔ تحقیق ہر روز علم کے نت نئے دروازے کھولتی ہے۔

ہمارے یہاں تحقیق ماضی میں کیے گئے کاموں (ہم نے یہ کیا، ہم نے وہ کیا) پر ہو رہی ہے۔ کوئی نیا کام نظر نہیں آ رہا، جس پر یہ کہا جاسکے کہ واقعی یہ معیاری کام اور معیاری تحقیق ہے۔ موجودہ حالات سے سبق لینے کی ضرورت ہے باوجود اس کے امت مسلمہ اپنے ماضی سے باہر نکلنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ سیاسی اختلافات ضرور کیجیے، لیکن یہ اختلافات مثبت تنقید کی صورت میں ہوں تو زیادہ بہتر ہے۔ اس سے مسلم دنیا نہ صرف قریب آئے گی بلکہ آگے بھی بڑھے گی۔ مذہبی اختلافات کی اصطلاح کو اگر ’مذہبی مودت‘ کر لیا جائے تو جو اتحاد ملت قائم ہوگا وہ شاید دنیا کے لیے کسی کامیابی سے کم نہ ہوگا۔

مسلم دنیا کو چاہیے کہ ایک ایسا تعلیمی نظام متعارف کرائے جہاں دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کی باقاعدہ تعلیم دی جائے جس میں سائنسی علوم پر تحقیق کی جائے، موجودہ دنیا سائنسی دنیا ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جس میں ایک چھوٹا سا بچہ سائنس کی نہ صرف بنیادی معلومات رکھتا ہے بلکہ عملی تجربات بھی کرتا رہتا ہے۔ اس موقع پر اس کے سوالات (خاص کر مذہبی) کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اسے ایسے دلائل جو اس کی عمر کی مناسبت سے ہوں، سے جوابات دیئے جائیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو تنقیدی نگاہ رکھتے ہیں ان کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ علم کے دریچے مزید کھلتے چلے جائیں۔ آج 12 ربیع الاول جیسے مبارک موقع پرمسلم دنیا کو آپس میں متحد ہو کر چلنے کا عہد کرنا چاہئے۔ اگر یہ ایک ہوگئے تو دنیا میں نیا انقلاب برپا ہوجائے گا۔



from Qaumi Awaz https://ift.tt/Xj3hdnE

اے جبلت زندہ باد

فرق بس اس سے پڑتا ہے تو کہ کسی بھی دور کی جدید ابلاغی دنیا میں کون کتنی جلد آبادی کے بڑے طبقے کے دل و دماغ تک پہنچ کر خود کو مسلسل روزمرہ کا موضوعِ سخن بنانے میں کامیاب ہے۔

سیاستِ دوراں نام ہی اس راز کا ہے کہ کون اپنا منجن کتنی کامیابی سے بیچ سکتا ہے اور اس کا سیلز نیٹ ورک کس قدر جدید اور متحرک ہے۔ آپ کسی بھی پاپولسٹ لیڈر کی زندگی دیکھ لیں۔ ان سب میں کچھ بنیادی اقدار مشترک ہیں۔ یہ سب گیٹ کریشر ہوتے ہیں اور روایتی سیاسی سیٹ اپ کو اوپر نیچے کر کے اپنے لیے راستہ نکالتے ہیں۔

وہ اپنی ذاتی کشش کو نظریاتی میدے میں گوندھ کر ایسا بیانیہ تشکیل دینے کے ماہر ہوتے ہیں، جو نہ صرف زود ہضم ہو بلکہ آسانی سے آبادی کے اکثریتی طبقے بالخصوص جوان خون کے جبلی تار چھیڑ سکے اور ان میں سے بیشتر رفتہ رفتہ یہ سوچنے پر آمادہ ہو جائیں کہ ہم بھی تو یہی محسوس کر رہے تھے۔ یہ تو ہم میں سے ہی ہے۔

پاپولسٹ لیڈر غیر روایتی خطیب اور مسجع و مقفع لغت کے بجائے روزمرہ کی زبان میں اپنے پرچار کے ماہر ہوتے ہیں۔ یہ پیغام اکثر مختصر و پراثر ہوتا ہے۔ عموماً ان کے ایجنڈے کے دو بنیادی اجزائے ترکیبی ہوتے ہیں۔ قوم پرستی اور اکثریت میں مقبول مذہبی یا پھر کوئی غالب نظریہ جس میں ایک عظیم ماضی کی جھلک ہو۔ پاپولسٹ لیڈر اپنی کہے پر ”پتھر پے لکیر” کی طرح قائم نہیں رہتے بلکہ ہوا اور مزاج دیکھ کر موقف میں مسلسل تبدیلی کرتے رہتے ہیں۔ نہیں بدلتا تو ہدف۔ یعنی ہر قیمت پر اقتدار۔

ان کی دوکان پر ہر طبقے کے لیے کچھ نہ کچھ سودا پڑا رہتا ہے۔ ان کا اسٹرٹیجک گودام ہر طرح کے خوابوں اور معلوم و نامعلوم خوف کی مصنوعات سے اٹا رہتا ہے۔

خواب اور خوف فروخت کرنے کی تکنیک یہ بیانیہ ہے کہ اگر تم نے میرا ساتھ دیا تو تمہاری مانگ ستاروں سے بھر دوں گا۔ اگر تم نے میری مخالفت کی تو نہ صرف یہ سماج، ریاست اور اس کی معیشت و ثقافت برباد ہو جائے گی بلکہ تمہارا نام بھی اس ریاست کے دشمنوں میں لکھا جائے گا۔

میرا تو کچھ نہیں بگڑے گا مگر تم پھر میرے جیسا ہیرا تلاش کرنے میں نہ جانے کتنے عشروں تک مزید مارے مارے پھرتے رہو گے۔ لہذا عظیم بننے کا یہ موقع ہاتھ سے مت جانے دو۔ ہاتھ میں ہاتھ دو تا کہ تمہیں اور تمہاری اگلی نسلوں کے لیے ایک سنہرے مستقبل کی بنیاد رکھ سکوں۔

ایسا لیڈر کبھی بھی حریف کے میدان میں نہیں کھیلتا بلکہ اپنی پسند کے میدان میں حریف کو لا کے گھیرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ انتھک ہوتا ہے۔ اس کی گول پوسٹ اس کے کندھوں پر رہتی ہے۔ وہ حریف سے کرکٹ کھیلتے کھیلتے اچانک ہاکی شروع کر سکتا ہے اور حسبِ ضرورت بیڈ منٹن کا ریکٹ پھینک کر رگبی یا باکسنگ پر بھی اتر سکتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ حریف مسلسل بھونچکا اور ایڑیوں کے بل پر رہے اور تماشائی ہر آن بدلتا منظر دیکھتے دیکھتے کبھی بھی بوریت کا شکار نہ ہوں۔

اس کا ہر بیان ایک نئی بحث چھیڑتا ہے اور مخالفین اس بیان کے حق یا مخالفت میں بٹ کر اس کی باریکیوں میں اس قدر الجھ جاتے ہیں کہ اپنا متبادل بیانیہ تیار کرنے سے بھی غافل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ سائنسی و زمینی حقائق بھلے کچھ بھی ہوں۔ پاپولسٹ لیڈر کا اپنا نظامِ حقائق اور نظامِ دلائل ہوتا ہے۔ وہ تکرار کی تکنیک غیر معمولی انداز میں استعمال کرتے ہوئے عام آدمی کو بھی ذہنی طور پر یہ ماننے پر مجبور کر دیتا ہے کہ اگر ہمارا لیڈر مسلسل ایک ہی بات تواتر سے کہہ رہا ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ سچائی اور حقیقت تو ضرور ہو گی۔

اور پھر اس کے حامی اسے مافوق الفطرت انسان کے الوہی منڈب پر خود بخود چڑھا دیتے ہیں۔ اس کی آفاقی عظمت کے قصیدے تخلیق ہونے لگتے ہیں۔ ساتھ کے لوگ بھی اس کی مرعوبیت کے سحر میں لاشعوری طور پر مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں جیسے اپنے ہی ہاتھوں سے تراشے مجسمے کے سامنے جھکنے کی لاشعوری خواہش۔

مگر مقبولیت تو آنی جانی ہے ۔چنانچہ اس عارضی مقبولیت کو دائمی یا تاحیات صورت دینے کے لیے ہر پاپولسٹ لیڈر کو بطور پنچنگ بیگ کم از کم ایک عدد سیاسی، نسلی، علاقائی یا نظریاتی اندرونی یا بیرونی دشمن درکار ہوتا ہے۔ اگر ایسا دشمن نہ میسر ہو تو لیڈر خود تخلیق کر لیتا ہے تاکہ جب اس کی لمبی لمبی گفتگو، قلابوں اور ہوا میں مکے بازی کی مشقِ مسلسل سے تماشائی اوبھنے لگیں تو دوبارہ جوش بھرنے کے لیے ان کی توجہ پنچنگ بیگ کی جانب موڑی جا سکے۔

اور جب اس لیڈر کو اس کی حتمی منزل یعنی اقتدار مل جاتا ہے تو پھر اس کے حامی اس کی جانب امید بھری نگاہوں سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ لیڈر کرسی تک پہنچتے پہنچتے اپنے حامیوں کی توقعات آسمان پر پہنچا چکا ہوتا ہے۔ مگر توقعات بندھوانا اور پھر انہیں عملاً نبھانا دو بالکل ہی الگ عمل ہیں۔

چنانچہ مطالبات کہیں بڑھتے ہی نہ چلے جائیں۔ اس کی پیش بندی میں رفتہ رفتہ مخالفین اور پھر قریبی رفقا پر سخت گیری کا شکنجہ کسنا شروع ہو جاتا ہے۔ کسی بھی قسم کا اختلاف ایک اضافی پنچنگ بیگ بن جاتا ہے۔ لیڈر چونکہ پہلے ہی اپنے بھگتوں میں یہ ایمان بھر چکا ہوتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور ہر حال میں اپنے قدموں پر ڈٹا رہے گا۔ لہذا وہ ہر ناکامی کا دوش کسی بھی حقیقی و خیالی اندرونی و بیرونی دشمن کے سر منڈھنے کا وتیرہ اپنانے لگتا ہے ۔

اپنے خلاف ہونے والی حقیقی و فرضی سازشوں کو ناکام دکھانے کے لیے ان رفقا میں سے کسی کو بھی قربانی کا بکرا بنانے میں اسے کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ جو رفقا نہ صرف اسے اپنے کندھوں پر سوار کر کے سنہری تخت تک لائے بلکہ اس کا مافوق الفطرت تاثر تخلیق کرنے میں بھی انہوں نے ہی بنیادی کردار ادا کیا۔

کچھ دنوں بعد جب یہ تلخ سچ خاموش انداز میں کھلنے لگتا ہے کہ لیڈر کے پاس صرف دل و دماغ کو چکاچوند کرنے والی وقتی صلاحیت ہی ہے تو اس سے پہلے کہ یہ حقیقت وبائی انداز میں پھیلنا شروع کرے پاپولسٹ لیڈر ریاستی مشینری اور انتظامی ڈھانچے کو وہ ڈھب دینے کی کوششوں میں جٹ جاتا ہے جو اسے جیتے جی معزولی، ہار یا سیاسی شکست سے محفوظ رکھ سکے۔

رفتہ رفتہ خود کو محفوظ و مضبوط تر رکھنے کی یہ خواہش ہی جنون اور جنون سے اندھے پن اور اندھے پن سے تنہائی اور تنہائی سے ذاتی بقا کے خوف میں تبدیل ہوتی ہوتی بند مٹھی کی ریت کی طرح گرنا شروع ہو جاتی ہے۔

مگر وہ جاتے جاتے بھی کوشش کرتا ہے، ”میں نہیں تو کچھ بھی نہیں‘‘۔ اگلی چند حکومتیں جسدِ ریاست پر پاپولسٹ لیڈر کے لگائے چرکے مندمل کرنے میں خرچ ہوتی چلی جاتی ہیں اور اس بیچ پھر ایک نئی نسل جوان ہو جاتی ہے، جس نے ماضیِ قریب کے اس پاپولسٹ لیڈر کے بارے میں سنا ضرور ہوتا ہے مگر اسے براہِ راست برتا نہیں ہوتا۔

چنانچہ اس نئی نسل میں یہ سوچ پروان چڑھنے لگتی ہے کہ وہ زمانہ اور تھا یہ زمانہ اور ہے۔ تاریخ خود کو ہرگز نہیں دھرائے گی اور پھر اچانک انہی کے درمیان سے کوئی ایک اور پاپولسٹ ابھرنا شروع کر دیتا ہے جو پیچیدہ مسائل کے ایسے ایسے مختصر، آسان اور تیر بہدف نسخے اپنی پوٹلی میں بھر کے لے آتا ہے کہ اگلی نسل پھر سے دھڑا دھڑ اس منجن پر ٹوٹ پڑتی ہے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب تک محرومیاں، عدم تحفظ اور دوسرے کو زیر کرنے کی خو برقرار ہے۔ پاپولسٹ لیڈر فصل کاٹتے رہیں گے۔ اس کا تعلق آبادی کے خواندہ نا خواندہ ہونے سے زیادہ بنیادی انسانی جبلت سے ہے۔ مانا کہ ہر شے پچھلے سات ہزار برس میں بدل گئی ہو گی۔ البتہ جبلت جہاں تھی وہیں کھڑی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔



from Qaumi Awaz https://ift.tt/AfT3tFg

خانہ بدوش ثقافت

کلچر کی کئی قسمیں ہوتی ہیں جو اپنے ماحول اور حالات کے تحت تشکیل پاتی ہیں۔ قبائل اور برادریاں جو بڑی بڑی تہذیبوں سے کٹ کر علیحدہ ہو جاتی ہیں وہ اپنے محدود دائرے میں ضرورتوں کے تحت رسم و رواج کی پابندی کرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔

غذا اور شکار کے عہد کے بعد جب کچھ قبائل نے زراعت اختیار کرتے ہوئے آبادیاں بسائیں اور مستقل رہائش اختیار کر لی، لیکن بہت سے ایسے قبائل بھی تھے، جنہوں نے خانہ بدوشی کی زندگی ترک نہیں کی۔ انہوں نے نہ تو آبادیوں میں رہنا پسند کیا اور نہ ہی اپنا خانہ بدوشی کا کلچر چھوڑ کر خود کو بڑی تہذیبوں میں ضم کیا۔ اس وجہ سے خانہ بدوشوں اور آبادیوں میں رہنے والوں میں ہمیشہ سے کلچر اور تہذیب کے درمیان تصادم رہا۔ آبادیوں کا رخ کرنے والے قبائل نے ان خانہ بدوشوں کو بار بیرین یعنی وحشی کہا، لیکن ان کے بارے میں آرا بدلتی رہی ہیں۔ ابتداء میں بار بیرین کے بارے میں یہ سمجھا جاتا تھا یہ سخت جنگجو اور خوفناک لوگ ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان میں اور مہذب لوگوں میں فرق ہے۔ مہذب قوموں کے مقابلے میں باربیرین کا کلچر کم تر اور پست ہے۔ جب قوموں نے بڑے مذاہب کو اختیار کیا جن میں عیسائیت اور اسلام قابل ذکر ہیں۔ اس دور میں باربیرین کو پگان کہہ کر تہذیب سے خارج کر دیا گیا، لیکن 17ویں صدی میں جب روشن خیالی کا دور آیا تو ان خانہ بدوش لوگوں کے بارے میں دانش وروں کی رومانوی آراء قائم ہوئیں اور انہیں Nobal Savage (یعنی شریف وحشی) کہا جانے لگا۔

تاریخ میں ایک تو ان خانہ بدوش لوگوں کا ذکر ہے جو چین، وسطی ایشیا، خراساں اور کوہ قاف تک پھیلے ہوئے تھے۔ دوسرے وہ قبائل تھے جو فرانس، اٹلی، اسپین اور جرمنی میں بکھرے ہوئے تھے۔ یہ قبائل بڑی سلطنتوں کے لئے خطرے کا باعث ہوتے تھےکیونکہ یہ بڑی سلطنتوں کی سرحدوں پر لوٹ مار اور قتل و غارت کرتے تھے۔ اس لئے جب ہندوستان میں موریہ سلطنت قائم ہوئی تو چندر گپت کے مشیر کوٹلیا نے اسے مشورہ دیا کہ ہر صورت میں چاہے دھوکہ ہو یا فریب ان قبائل کو جو سلطنتوں میں شامل نہیں ہیں انہیں اپنی حکومت کاحصہ بنائے۔ رومی سلطنت میں بھی مسلسل جرمن قبائل گال، کیلٹ اور وندلز سے جنگیں لڑیں، لیکن ان کی آزادی ختم کرکے ان کو سلطنت میں شامل کیا جائے۔ چین کے ہان خاندان نے شن نو اور دوسرے قبائل کے حملوں کو روکنے کے لئے تین طریقے استعمال کیے۔ دیوار چین کی تعمیر مکمل کرائی، تاکہ ان کے حملوں کو روکا جا سکے۔ ان کے ساتھ جنگیں لڑیں اور آخر میں یہ فیصلہ ہوا کہ چونکہ جنگوں کے اخراجات بہت ہوتے ہیں۔ اس لئے انہیں تحفے تحائف دے کر اور شاہی خاندان کی شہزادیوں سے شادیاں کروا کے دوست بنایا جائے، لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود چین اور خانہ بدوش قبائل کے تعلقات میں مصلحت نہیں آسکی۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خانہ بدوش قبائل کیوں اپنی آزادی پر قائم رہے اور اپنے کلچر کی بنیاد پر طاقتور اور جارح بنے رہے۔ ان قبائل نے جس کلچر کو فروغ دیا، اس میں ان کا مسلسل سفر پر رہنا تھا جو انہیں متحرک رکھتا تھا۔ دوران سفر نئی چراگاہوں کی تلاش اور نیچر کے بارے میں نئے نئے تجربات ہوتے تھے۔ ان کے قبیلے کی تعداد بھی محدود ہوتی تھی اور یہ زیادہ بچے پیدا نہیں ہونے دیتے تھے۔ زراعت کے بجائے یہ مویشی پالتے تھے۔ ان ہی قبائل نے سب سے پہلے گھوڑے کو سدھایا تھا اور بعد میں انہوں نےگھوڑے کی باگ اور زین ایجاد کی تھی۔ اسی وجہ سے یہ گھڑ سواری میں ماہر ہو گئے تھے۔ گھڑ سواری کے ساتھ ساتھ انہوں نے مہلک تیر کمان بھی ایجاد کئے تھے اور گھوڑے کی پشت پر سوار رہتے ہوئے دشمن پر تیروں کی بارش کرتے تھے۔ یہ گھوڑے کا گوشت بھی کھاتے تھے اور گھوڑی کے دودھ کی بنی شراب بھی پیتے تھے جو کومش کہلاتی تھی۔ ان کی عورتیں بھی ان کے ساتھ نہ صرف جنگ میں شریک ہوتی تھیں، بلکہ سفر کرنے کے لئے گھوڑاگاڑیوں میں سامان بھی لادتی تھیں۔ انہیں قبائل نے آگے چل کر رتھ کی ایجاد کی تھی۔ جس کی وجہ سے جنگوں میں رتھ کے استعمال نے انہیں جنگوں میں فوقیت دی تھی۔

چونکہ یہ نہ تو ایک جگہ آباد رہتے تھے، نہ کھیتی باڑی کرتے تھے۔ اس لئے روز مرہ کی غذا میں دودھ دہی وغیرہ شامل تھا اور جب ان کا گزارا نہیں ہوتا تھا تو یہ آبادیوں میں لوٹ مار کرکے لوگوں کا قتل عام بھی کرتے۔ ان میں سے وہ قبائل جو شاہراہ ریشم کے راستے پر آتے جاتے رہتے تھے،وہ پرامن رہنے کے لئے چین جانے والے تاجروں سے معاوضہ طلب کرتے تھے۔ ازبکستان کے خانہ بدوشوں نے مشہور دوکوہان والے اونٹ کو سدھایا تھا جو سامان تجارت لے کر چین تک جاتا تھا۔

لیکن وہ قبائل جو کسی بڑی سلطنت کا حصہ ہو گئے یا انہوں نے خود بڑی حکومتیں قائم کر لیں تو وہ اپنے خانہ بدوشی کے کلچر سے نکل کر مہذب دنیا میں شامل ہو گئے۔ جیسے کشن قبیلہ جو چین سے آیا تھا اس نے ازبکستان، افغانستان اور ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کی، اسی طرح س سلجوقوں اور عثمانی ترکوں نے فتوحات کے ذریعے بڑی سلطنتوں کی بنیاد ڈالی۔ 12ویں صدی عیسوی میں چنگیز خان کی راہنمائی میں متحد ہونے والے منگولوں نے چین وسطی ایشیا، ایران اور عراق تک اپنا اقتدار پھیلایا اور بالآخر ان کی یہ پھیلی ہوئی سلطنت آہستہ آہستہ زوال پذیر ہوتی چلی گئی اور یہ خود بڑی تہذیبوں میں ضم ہو گئے۔ اسی طرح جیسے رومی سلطنت کی جنگیں اسلام اور بدھ مت، فرانس، جرمنی، اٹلی، سپین اور شمالی افریقہ کے خانہ بدوشوں سے مسلسل ہوتی رہیں اور بالآخر سلطنت روما کو جرمن قبائل کے ہاتھوں شکست ہوئی۔

ایک اہم خانہ بدوش قبیلہ ہویتوں کا ہے جو تاریخ کے تمام نشیب و فراز کے باوجود اپنی آزادانہ شناخت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہندوستان سے نکل کر مشرقی یورپ گئے اور رومانیہ میں طویل قیام کی وجہ سے ان کی زبان کو روما کہا جاتا ہے۔ ابتداء میں یہ بیل گاڑیوں میں سفر کرتے تھے، لیکن اب کاروان میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں۔ یہ تقریباً یورپ کے ہر ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، لیکن حکومتوں کی کوششوں کے باوجود مستقل رہائش اختیار نہیں کی، چونکہ یہ عام لوگوں سے علیحدہ رہتے ہیں اس لئے ان کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں شامل ہیں اور انہیں شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پروشیاء کے حکمران فریڈرک دوئم نے یہ حکم دیا تھا کہ ہر سولہ سال کے جپسی یعنی خانہ بدوش کو پھانسی دے دی جائے۔ جب جرمنی میں نازی پارٹی اقتدار میں آئی تو اس نے بھی انہیں آریا نسل کی پاکیزگی کے لئے خطرہ سمجھا اور انہیں کنسنٹریشن (Concentration) کیمپ میں گیس چیمبرز کے زریعے قتل کروایا۔

جپسی لوگ پرامن خانہ بدوش ہیں۔ یہ لڑائی اور جنگوں سے دور رہتے ہیں۔ ان کی روزی کا ذریعہ یہ ہے کہ جہاں کہیں ان کا میلہ لگتا ہے وہاں یہ لوگوں کی قسمت کا حال بتاتے ہیں اور اپنی بنائی ہوئی چیزیں جیسے ٹوکریاں یا نقش و نگار والے کپڑے فروخت کرتے ہیں۔ یہ جپسی امریکہ تک بھی پہنچ گئے ہیں، لیکن وہاں بھی خانہ بدوش ہی ہیں۔

خانہ بدوشوں کا ایک اور اہم طبقہ بنجاروں کا تھا۔ یہ گاؤں دیہاتوں سے اناج لے کر قصبوں اور شہروں میں اس کی سپلائی کرتے تھے۔ نظیر آبادی کی مشہور نظم ''بنجارہ نامہ‘‘ میں ان اشیاء کی مکمل تفصیل ہے۔ جن کی یہ تجارت کرتے تھے۔ ان کی تجارت کاخاتمہ اس وقت ہوا جب ہندوستان میں ریلوے آئی اور اب گڈز ٹرین کے ذریعے سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے لگا۔

اگرچہ اب خانہ بدوشوں کی وہ قسمیں تو نہیں رہی جو عہدوسطیٰ میں تھیں، لیکن اب بھی ہندوستان اور پاکستان میں خانہ بدوش موجود ہیں جوشہروں کے حاشیوں پر رہتے ہیں۔ ہندوستان میں ادی واسی ہیں جو جنگلوں اور پہاڑوں میں رہتے ہیں اور اپنے کلچر کی حفاظت کیے ہوئے ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ان کا کلچر بھی ختم ہو رہا ہے اور یہ خود بھی یا تو آبادیوں میں گھل مل رہے ہیں یا علیحدہ رہتے ہوئے اپنی حیثیت اور شناخت کو کھو رہے ہیں۔



from Qaumi Awaz https://ift.tt/0tr3dEF

ہمارا نوجوان بے ہودگی کی اس نہج پر اچانک نہیں پہنچا

تب اساتذہ کے پاس سوال سننے اور اس کا جواب دینے کا نا صرف حوصلہ تھا بلکہ طلباء کے نوخیز اذہان سے ابہام دور کرنے کی فرصت بھی تھی۔اپنے استاد کے الفاظ مجھے اب بھی یاد ہیں، ’’جب ایک شخص معاشرتی رویوں پر ہنستا ہے تو اسے مزاح کہتے ہیں لیکن جب سارا معاشرہ کسی ایک شخص پر ہنسنے لگے تو وہ طنز کہلائے گا۔‘‘

طنز اور مزاح کا تعلق معاشرے کی مشترکہ حسِ مزاح سے ہے اور کسی بھی صحت مند معاشرے کے اوصاف میں حس مزاح کا کردار وہی ہے، جو ایک صحت مند جسم میں روح کا۔ جس طرح روح سے عاری انسان کو مردہ قرار دیا جاتا ہے، اسی طرح جو معاشرہ حس مزاح سے محروم ہو جائے، اس میں زندگی کی رمق تلاش کرنا بھی کار لاحاصل ہے۔

لیکن روز مرہ زندگی کے باقی تمام معاملات کی طرح ہماری حس مزاح کا معاملہ بھی انتہائی پیچیدہ ہے۔ اب حس مزاح کو محض ہنسنے، ہنسانے کی صلاحیت سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے اور اس سب میں طنز اور مزاح کے درمیان موجود وہ مہین لکیر کہیں کھو سی گئی ہے۔ مزاح میں شائستگی کا وہ مقام، جس کو پار کرنا کبھی بد اخلاقی تصور ہوا کرتا تھا، اب وہ کہیں بہت دور رہ گیا ہے۔

بے ہودگی کی اس نہج پر ہم اچانک نہیں پہنچے۔ نوے کی دہائی میں جب وی سی آر اور سی ڈیز کا دور اپنے عروج پر تھا، تب سٹیج ڈراموں کا زمانہ تھا۔ جگت باز فن کار ایک دوسرے کی شکلوں، آواز ، لب و لہجے اور لسانی و ثقافتی پس منظر پر ایک پھبتی کستے اور سامعین ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جاتے۔اگلے ہی روز اس مزاح کا مظاہرہ ایک دوسرے کے ساتھ گفت گو میں ہونے لگتا۔ گھٹیا جملے روز مرہ کی گفت گو کا حصہ بنتے چلے جاتے اور اسی دوران میں دوسرے ڈرامے کی کیسٹ مارکیٹ میں پہنچ جاتی۔

ایسے میں کبھی کبھار کئی مقتدر شخصیات کے متعلق بھی پتہ چلتا رہتا کہ جب وہ امور سلطنت میں الجھے عوام کی خدمت کرتے، کرتے تھک جائیں تو کسی کامیڈین کو فون کر کے حکم صادر کرتے ہیں کہ اب انہیں ہنسایا جائے کہ تازہ دم ہو کر وہ پھر سے بہتر طریقے سے خدمت کا بھاری بوجھ اٹھا سکیں۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں، عوام کو تو بس اسی مہر تصدیق کی ضرورت تھی۔

سیاسی اختلافات کو ذاتی سطح پر کھینچا گیا، مختلف الرائے پر جلسوں میں گھٹیا پھبتیاں کسنے کا رواج شروع ہوا، بڑ بولے مقرر عوامی اجتماعات اور سیاسی جلسوں کی جان بننے لگے، جو مخالفین کی شکلوں، زبان، لب و لہجے اور لباس پر عین سٹیج ڈراموں کی طرز پر جگتیں لگاتے۔ سر عام لغو و فحش گوئی عیب نہ رہی اور یوں رفتہ رفتہ بقول شخصے حس مزاح کا یہ حال ہوا کہ جس بات پر ہمیں ہنسنا چاہیے اس پر رونے لگتے ہیں اور سنجیدہ باتوں پر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا نے اس بچی کچھی اخلاقیات کو بھی اب ماضی کا قصہ بنا دیا ہے۔ نظریات کی جنگ لڑنے کو اب کسی باقاعدہ مطالعے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ نظریات کی لڑائی کا ہتھیار اب صرف پانچ انچ کی سکرین ہے، جہاں پسند کے دلائل، اپنی حس مزاح سے مطابقت رکھتے جملے اور چبھتے ہوئے فقرے لائیک، شیئر، کاپی پیسٹ اور ری ٹویٹ کرنے کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہے۔

میمز بنا کر نظریاتی مخالفین کی دھجیاں اڑائیں یا ٹرولنگ سے ہر سیدھی بات کا منہ توڑ جواب دیں کوئی روکنے والا نہیں۔ اگر اس سب پر بھی دماغ خرچ ہو رہا ہے تو سیدھے سبھاؤ گالیاں بھی دی جا سکتی ہیں بلکہ دی جاتی ہیں۔ یہیں سے ہماری نوجوان نسل کی سیاسی تربیت کا آغاز و اختتام ہوتا ہے اور یہی اب حس مزاح ہے، جس میں ’’مزاح‘‘ اب اپنے جملہ فرائض ’’طنز‘‘ کے حوالے کر کے کب کا سبک دوش ہو چکا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔



from Qaumi Awaz https://ift.tt/ln3fcup
Older Posts